روشنی کی یہ ہوس کیا کیا جلائے گی نہ پوچھ
آرزوئے صبح کتنے ظلم ڈھائے گی نہ پوچھ
ہوش میں آئے گی دنیا میری بے ہوشی کے بعد
میری خاموشی وہ ہنگامہ مچائے گی نہ پوچھ
نسل آدم رفتہ رفتہ خود کو کر لے گی تباہ
اتنی سختی سے قیامت پیش آئے گی نہ پوچھ
درمیاں جو جسم کا پردہ ہے کیسے ہوگا چاک
موت کس ترکیب سے ہم کو ملائے گی نہ پوچھ
جسم اجازت دے ہی دے گا پر سمٹ جانے کے بعد
روح کیسے اس قفس کو گھر بنائے گی نہ پوچھ
چلو فرار خودی کا کوئی صلہ تو ملا ہمیں
ملے نہیں اس کو ہمیں خدا تو ملا نشاط
قریۂ جاں سے جدا ہوئی خوشبو سفر
کچھ ایسا ہے اب کے کوئی ملا تو ملا ہمارے بعد
روایت چلی محبت کی نظام عالم ہستی کو
فلسفہ تو ملا جو چھوڑ آئے تھے تسکین دل کے
واسطے ہم تمہیں اے جان تمنا وہ نقش پا تو ملا
سوال آ گئے آنکھوں سے چھن کے ہونٹوں پر ہمیں
جواب نہ دینے کا فائدہ تو ملا یہ آہ و گریہ و زاری
کہیں تو کام آئی ہوائے دشت کو پانی کا ذائقہ
تو ملا نماز عصر نہیں پڑھ سکی مری وحشت جنون
عشق کو میدان کربلا تو ملا پھر اس کے بعد بر آمد نہ ہو سکا
کچھ بھی ہمارے آنکھ میں جلتا ہوا دیا تو ملا